Muadh_Khan, Naqshband66, Taalibah, Jinn, samah, the fake shaykh, abu mohammed, Acacia, dr76, my176, Abdullah bin Mubarak, BHAI1, Maria al-Qibtiyya, Abu Salma, Umm Khadeejah, abuzayd2k, Abdur Rahman ibn Awf, ALIF, sipraomer, hmdsalahuddin, saa10245, bint e aisha, a2z, tanveerzakee 6 guests appreciate this topic.
This boy is a former (Hindu) student of mine. He has saffron inclinations. You will be able to see the pic only if you can login into Facebook. I saw a similar face in a dream a few days ago.
Why is it a face to remember? I'm not on Facebook but I can still see his picture.
Sister a few days ago I got a dream. We are about a dozen people somewhere and then there is this youth with a face similar to the above one and he is Hazrat Mehdi AS. There is this talk as to what to do and how to proceed. Then it is decided that first we should present Hazrat Mehdi AS to the people so we go to an old fashioned balcony type window in the upper story and announce to the people who he is. Then my sleep was broken and it was 3:15 AM. The dream has filled my heart and mind with good vibes.
This reminds me that I should have called all these boys like him to Islam. In their batch the Hindu boys created a lot of communal tension in the department.
Finally my curiosity is that if and when Hazrat Mehdi AS is revealed will he look like this boy.
If they were creating communal tensions at an institution like AMU few years ago then just imagine the plight at other colleges in 2022 when they are in full force.
In terms of looks, Imam Mahdi will be better looking than this soy boy :)
If they were creating communal tensions at an institution like AMU few years ago then just imagine the plight at other colleges in 2022 when they are in full force.
Yes my brother.
Quote:
In terms of looks, Imam Mahdi will be better looking than this soy boy :)
This is an interview with a mathematician. By profession and training I am a mathematical physicist. I suppose once in a while I should also talk about the relevance of my field of expertize to the society in general and Muslim society in particular. Sadly I am not getting time and energy to do this article too.
Three Revolutions : Google Translation of a part of an FB Post
The revolution of Tunis was started by a push cart peddler...
Egypt's famous inquilab was Marhoon-e-Minnat of a young girl
in which the throne of Egyptian Pharaoh Husni Mubarak was overturned...
and Shami revolution was done by three young children.
Sunset I got this post from the wall of Mufti Junain Palanpuri Sahab on Facebook.
I find it difficult to read Urdu on the net.
Yet the topic is so critical that I can not ignore it.
The issue was very heart breaking from whatever I could manage to read in a single sitting.
غروبِ آفتاب
اسلام آ باد اجلاس سے تدفین تک کی کہانی
راوی: ایچ ایم یونس عالم
شیعہ سنی اختلاف گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کا ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے۔ حکمران بھی کبھی کبھار جذبات میں آکر اس آگ پر پانی ڈالنے کی ناکام کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس بار بھی حکمرانوں نے شیعہ سنی اختلافات کے ان بھڑکتے شعلوں کو بجھانے کیلئے آستین چڑھائے اور بریگیڈیئر جاوید چیمہ کو یہ مشن سونپ دیا گیا کہ وہ ان دونوں مکتب فکر کے علما کو آپس میں بٹھائیں تاکہ ان اختلافات کے خاتمے کا کوئی حتمی حل تلاش کیا جائے۔
دونوں مسلک کے علما کو اسلام آباد میں سرجوڑ کر کچھ سوچنے کیلئے مدعو کیا گیا۔ سنی علما کی طرف سے جو نمائندگان تھے ان کی قیادت مفتی عتیق الرحمن شہید رحمۃ اﷲ علیہ نے کی۔ مؤرخہ 5جون 2005ء کو اجلاس شروع ہوا۔ بریگیڈیئر جاوید چیمہ نے کھانس کر گلے کو تازگی بخشی اور بسم اﷲ پڑھ کر شیعہ سنی اختلافات کا رونا شروع کردیا۔ اور بڑے ہی درد بھرے اندا زمیں کہا کہ دیکھیں ناں جی…! کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں مساجد وامام بارگاہوں میں نمازیں کلاشنکوفوں کے سائے تلے ادا کی جاتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس بدامنی کی اصل وجہ انتہاپسند علما ہیں۔
یہ بات سماعتوں سے ٹکرانے کی دیر تھی کہ مفتی صاحب کے ماتھے پر بل آگئے اور ان سے رہا نہ گیا اور تقریر کے دوران ہی کھڑے ہوکر اپنی گرجدار آواز میں حکومت وقت کی وکالت کرنے والے بریگیڈیئر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے فرمایا:
’’بریگیڈیئر صاحب! آپ شاید ہمیں غریب مسکین سمجھ بیٹھے ہیں۔ مہربانی فرمائیں اور اپنی گفتگو کا انداز درست فرمائیں۔ آپ ہمیں بدامنی کا ذمہ دار قرار دیکر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آپ کے تو صدر اور وزیراعظم بھی عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہیں؟ جملوں سے آپ کے وزرا تک محفوظ نہیں ہیں۔ جو لوگ اپنے حکمرانوں کو بلکہ جو حکمران خود اپنے اپنے آپ کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتے وہ ہماری کلاشنکوفوں کے سائے کا رونا کیوں روتے ہیں؟‘‘
اوہو ارے حضرت…! آپ کیوں ناراض ہورہے ہیں؟ میں آپ لوگوں کی طرف اشارہ تھوڑی کررہا ہوں میری مراد تو…!!
’’جی نہیں ہم ابھی اتنے بچے نہیں کہ روٹی کو چوچی کہیں گے ہم سب سمجھتے ہیں۔‘‘
مفتی صاحب نے بریگیڈیئر صاحب کی بات کو کاٹتے ہوئے فرمایا۔
بریگیڈیئر صاحب کی تقریر ختم ہونے پر مذاکرے کا مرحلہ آیا اور یہ سوال دھرایا گیا کہ آخر شیعہ سنی اختلافات کیونکر وجود میں آئے اور ان اختلافات کا سدباب کس طرح کیا جاسکتا ہے…؟؟
جی مفتی صاحب…! آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں…؟
مفتی صاحب مخصوص اندا زمیں مسکرائے اور فرمایا ’’بریگیڈیئر صاحب…! آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ آپ لوگ سب کچھ جانتے ہوئے اس سنگین مسئلے سے نظریں چراتے ہیں اور پہلوتہی کرتے ہیں۔
اس حقیقت سے قطعاً انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان اختلافات کی اصل وجہ وہ 500 سو کتابیں ہیں جن میں صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی شان میں ایسے گستاخانہ اور غیر مہذبانہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ جن کا تصور ایک سلیم الفطرت انسان کرہی نہیں سکتا۔ نعوذباﷲ ان ہستیوں کو وہ گالیاں تک دی گئی ہیں کہ جو گلی کے اوباش لڑکوں کے منہ سے سن کر بھی انسان اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ دیتا ہے۔ ان کتابوں میں سیدنا صدیق اکبر، عمر فاروق، عثمان غنی رضوان اﷲ علیہم اجمعین جیسی عظیم شخصیات تک کی شانِ اقدس میں انتہائی بیہودہ کلمات استعمال کرکے قلم کا تقدس پامال کیا گیا ہے۔ اگر ان 500کتابوں کو دریا برد کر دیا جائے، بے لگام زبانوں کو لگام دیدی جائے، اگر ان بیہودہ انگلیوں اور ان انگلیوں میں پھنسے اس غیر مہذب قلم کو توڑ دیا جائے تو کسی کے سر میں درد نہیں کہ کوئی ان کے خلاف تحریکیں چلائے اور سڑکوں پر آئے۔‘‘
ایک گھنٹے پر مشتمل مفتی صاحب کی دلائل وبراہین اور اخبار وآثار سے آراستہ پیراستہ اس تحقیقی تقریر نے بہت سوں کو ’’بہت کچھ‘‘ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔ مجمعے کو گویا سانپ سونگھ گیا تھا۔ بریگیڈیئر صاحب ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔ مجلس برخاست ہونے پر مفتی صاحب کمرے سے باہر نکل رہے تھے کہ پیچھے سے بریگیڈیئر صاحب کی آواز آئی مفتی صاحب…!
آواز سن کر مفتی صاحب کے قدم رُک گئے۔ بریگیڈیئر صاحب نے مسکراتے ہوئے آگے بڑھ کر مفتی صاحب کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور کہنے لگے حضرت میں آپ سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ آپ جیسے دوراندیش لوگ مجھے ویسے ہی بہت اچھے لگتے ہیں۔ میں انشاء اﷲ عنقریب آپ سے کراچی میں ملاقات کروں گا۔
’’جزاک اﷲ۔ ضرور ضرور ہم آ پکو کراچی میں خوش آمدیدکہیں گے۔‘‘
مفتی صاحب نے اجازت لی اور رخصت ہوگئے۔ رات کے آخری پہر میں مفتی صاحب اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچے اور کراچی کیلئے روانہ ہوئے۔ 6جون کی صبح آٹھ بجے کراچی ایئرپورٹ پر مفتی صاحب جلوہ افروز ہوئے جہاں انکے فرزند ارجمند صاحبزادہ مفتی جمال عتیق پہلے سے ہی گاڑی لئے پہنچ کر انتظارکر رہے تھے۔ صاحبزادہ جمال نے فوراً لپک کر پہلے ہاتھ سے بریف کیس لیا اور پھر دونوں باپ بیٹے یوں بغلگیر ہوئے جیسے برسوں کے بچھڑے ہوئے ہوں۔ حال واحوال دریافت کرتے ہوئے گاڑی تک پہنچے۔ صاحبزادے نے بریف کیس پچھلی سیٹ پر پھینکتے ہوئے دروازہ کھولا اور مفتی صاحب کو عقیدت واحترام کیساتھ اگلی سیٹ پر بٹھایا۔ جمال نے اسٹیئرنگ سنبھالا اور سائٹ ایریا جامعہ بنوریہ عالمیہ میں واقع اپنی رہائش گاہ کی طرف چل پڑے۔ ناتھا خان پُل پر پہنچتے ہی جمال عتیق نے دس منٹ کی خاموشی کا بندھن توڑتے ہوئے سوال کرڈالا۔
اباجی…! سب چھوڑیں یہ بتائیں کہ اسلام آباد کے اس معرکے میں کون جیتا کون ہارا…؟ اور اس اجلاس کے کیا نتائج مرتب ہونے والے ہیں…؟
مفتی صاحب نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے اپنا عمامہ اتار کر سامنے ڈیش بورڈ پر رکھا اور ایک نظر اپنے فرزند پر ڈالتے ہوئے فرمایا:
’’بیٹا…! اس اجلاس کا فائدہ وائدہ کچھ نہیں۔ یہ اجلاس اگرچہ شیعہ سنی اختلافات کی بیخ کنی کیلئے رکھا گیا تھا لیکن اس کے اصل مقاصد کچھ اور تھے۔ ‘‘
کیا مطلب…؟ میں سمجھا نہیں…! صاحبزادہ جمال نے تعجب سے پوچھا۔
’’اس اجلاس کا مقصد محض یہ تھا کہ حکومت یہ معلوم کرنا چاہتی ہے کہ اتنے علمائے کرام کی شہادتوں کے بعد اب کون ہے جو امت کی قیادت کی صلاحیت سے لیس ہے۔ اس میٹنگ کا بنیادی مقصد صرف اور صرف اس چہرے کی شناخت کرنا تھا کہ جو ٹوٹی ہوئی تسبیح کے بکھرے ہوئے دانوں کی مانند اس امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستان کے مسلمانوں کو متحد رکھ سکتا ہو۔
بیٹا…! چہرے شناخت ہوچکے ہیں۔ اب تم میرے بقیہ ایام اپنے ہاتھ کی انگلیوں پر گننا شروع کردو۔‘‘
نہیں، نہیں…! ابا جی ایسا کچھ نہیں…! جمال نے مصنوعی مسکراہٹ میں جواب دیا۔
گھر پہنچ کر صاحبزادہ جمال عتیق ہمہ وقت اپنے عظیم والد کی خدمت میں رہنے لگے۔ اگر مفتی صاحب کسی پروگرام میں چلے جاتے تو بیٹا رات گئے تک اپنے والد کا انتظار کرتا رہتا۔ رات دیر تک وہ اپنے اباجی کی ٹانگیں دبانے میں لگا رہتا اور ساتھ ساتھ میں رازونیاز کی باتیں بھی چلتی رہتیں۔
راتوں کی یہ گپ شپ گھوم پھر کر یہیں آجاتی کہ مفتی صاحب اچانک فرمانے لگتے بیٹا…!’’نہ جانے مجھے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں اب زیادہ دن تمہارے درمیان نہیں رہ سکوں گا۔‘‘
6جون کے بعد کے ایام سمٹتے چلے گئے اور جون کی وہ تاریخ آئی کہ جس دن مفتی صاحب نے کالا پُل میں قرآن کے موضوع پر ایک جلسۂ عام سے ولولہ انگیز اور شعلہ بار خطاب فرمایا۔
گوانتاناموبے جیل میں ہونے والی قرآن کی بے حرمتی پر مفتی صاحب اس قدر بپھرے ہوئے تھے گویا کسی شخص کا سارا گھربار لٹ چکا ہو۔ یہ محض خطاب نہ تھا بلکہ وقت کے طاغوتوں کے سینے میں چبھنے والا اک زہریلا نشتر تھا۔ اس خطاب کو زندگی کا آخری خطاب بھی کہا جاسکتا ہے۔ رات دو بجے کے قریب پروگرام سے فارغ ہوکر مفتی صاحب گھر پہنچے اور حسب معمول فرزند جمال سے تنہائی میں گپ شپ ہوئی۔ اس بار مفتی صاحب نے فرمایا ’’بیٹا…! اب تو مجھے یقین سا ہونے لگا ہے کہ میں اس دارِفانی میں صرف چند ہی دن کا مہمان رہ گیا ہوں۔‘‘
ایک تو اباجی…! آپ یہ باتیں مت کیا کریں۔ اچھی خاصی گپ شپ چل رہی ہوتی ہے یہ بات کہہ کر آپ طبیعت میں اداسی پیدا کردیتے ہیں۔ جمال نے ماتھے پر شکن لاتے ہوئے شکوہ کیا۔
’’نہیں بیٹا…! یہ تو میں تمہیں اس مشکل اور امتحان سے نبٹنے کیلئے نفسیاتی طور پر تیار کررہا ہوں کہ اگر ہم بھی اﷲ کے دین کا ڈنکا بجاتے ہوئے کہیں مارے جائیں تو کہیں تم اپنے حواس نہ کھو دینا۔ تم سب سے بڑے ہو۔ اگر تم حوصلہ ہار گئے تو چھوٹوں کا حوصلہ ہارنا یقینی ہوجائیگا۔‘‘ مفتی صاحب نے تفصیل سے صاحبزادے کو سمجھایا۔
نہیں، نہیں اباجی…! انشاء اﷲ آپ کا تربیت یافتہ فرزند اتنی آسانی سے شکست تسلیم نہیں کریگا۔ میں حالات کا ہر صورت مقابلہ کروں گا۔جمال عتیق نے مفتی صاحب کو استقامت کا یقین دلایا اور گپ شپ ختم ہوگئی۔
بالآخر 23جون بروز جمعرات کا دن بھی آگیا۔ جمعرات کے دن مفتی صاحب کو مدینہ مسجد برنس روڈ درس قرآن کیلئے جانا ہوتا تھا، بعدنماز مغرب خلاف معمول غسل فرمایا۔ درس قرآن کیلئے لیجانے پر مامور ارشاد بھائی اپنے مقررہ وقت پر نہیں پہنچے۔ مفتی صاحب پر بے چینی کی سی کیفیت طاری ہوئی۔ اپنے فلیٹ سے نکلے، نیچے آئے، ارشاد بھائی کی عدم موجودگی پر واپس اوپر چلے گئے اور وقت کاٹنے کیلئے ارشاد بھائی کے انتظار میں بچوں سے گپ شپ شروع فرمادی۔
’’بیٹا عمار…! تمہارے کتنے سپارے ہوگئے ہیں۔‘‘
ابوجی…! میرے بارہ سپارے ہوگئے ہیں۔
’’محنت کرو محنت۔ محنت میں ہی سب کچھ رکھا ہے۔‘‘
مفتی صاحب نے اپنے بیٹے طلحہ اور عمار کو نصیحت کی اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔ ایک پرچی اٹھائی اور اسپر یہ عبارت تحریر فرمائی:
اے میرے اﷲ…!میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا…!
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی
پرچی ٹیبل پر رکھ کر مفتی صاحب کمرے سے باہر لاؤنج میں آئے تو سب سے چھوٹے فرزند عمار نے مطالبہ کر ڈالا۔
ابوجی…! آج آپ کیساتھ میں جاؤنگا۔
’’بیٹا…! گھر میں رہو امی کیساتھ۔ حالات ٹھیک نہیں ہیں۔‘‘
مفتی صاحب نے مسکراتے ہوئے مطالبہ رد فرمادیا۔
جی نہیں…! آج کچھ بھی ہوجائے آپ کیساتھ میں ہی جاؤں گا۔
عمار نے روہانسے اندا زمیں پکّا مطالبہ کردیا۔
مفتی صاحب نے جمال کی طرف دیکھا اور فرمایا ’’بیٹا…! تمہاری آنکھوں میں ویسے بھی تکلیف ہے تم آرام کرلو آج عمار چلا جائیگا…!‘‘ ٹھیک ہے اباجی…! جیسے آپکا حکم ہو۔
جمال نے بادل نخواستہ اباجی کے حکم کی تعمیل میں ہاں کردی۔
شناسا ہارن سننے پر مفتی صاحب عمار کو ساتھ لیکر نیچے آئے اور ارشاد بھائی کے ہمراہ مدینہ مسجد پہنچ گئے۔
بعدنماز عشا مقررہ وقت پر سورۃ التوبہ کی آیاتِ جہاد کا درس دیا۔ درس کے بعد مفتی صاحب کو واپس گھر پہنچانے کی ڈیوٹی پر مامور مفتی صاحب کے رفیق ویارغار اور مفتی صاحب پر خود کو نثار کرنے والے دوست بھائی ارشاد پہنچے اور مفتی صاحب کو لیکر اپنی سوزوکی کے پاس لے گئے۔ تصنع سے بے نیاز مفتی صاحب اس سادہ سی سوزوکی کے دروازے کی جانب بیٹھے۔
گاڑی مدینہ مسجد کی گلی سے نکلنے کو ہی تھی کہ اچانک برنس روڈ گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھا اور مفتی صاحب پر متوقع قاتلانہ حملہ ہوگیا۔ مفتی صاحب نے اس قدر باآواز بلند کلمہ پڑھا کہ گھروں میں بیٹھے لوگوں کی سماعتوں سے ٹکرایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مفتی صاحب اور بھائی ارشاد لہولہان ہوگئے۔ ایک گولی غازی عمار کی قسمت میں آئی جو پیٹ میں گردے سے قدرے اوپر لگی اور پار نکل گئی۔
جمال عتیق کے موبائل پر بیل بجی، موبائل کے ماتھے پر غیر متوقع طور پر معروف تاجرالطاف موتی کا نمبر دیکھ کر جمال عتیق نے ایک ہاتھ دل پر رکھا اور کال ریسیو کی۔
ہیلو جمال…! یار وہ مفتی صاحب پر دو لڑکوں نے فائرنگ کردی ہے تم فوراً سول ہسپتال پہنچو۔
ک ک کیا…؟؟ کیسے…؟ کدھر…؟ فائرنگ کس…؟
بھائی سب خیر خیرت ہے بس تم ہسپتال پہنچو۔
موتی صاحب نے جمال کی بات کاٹتے ہوئے کہا…
حزن وملال اور کرب نے جمال کے چہرے پر ڈیرے ڈال دئیے تھے۔ دماغ اس قدر ماؤف ہوا کہ گھر پر اطلاع دیے بغیربجائے سول ہسپتال کے وہ عباسی شہید ہسپتال پہنچ گیا۔
عباسی کی انتظامیہ نے لاعلمی کا اظہار کیا تو اسے یاد آیا کہ مجھے تو موتی صاحب نے تین چار مرتبہ سول ہسپتال کا کہا ہے۔ وہ برق رفتاری سے سول ہسپتال کی طرف دوڑ پڑا۔
ہائے افسوس…! پہنچنے پر اسے پتہ چلاکہ کل کا مفتی عتیق الرحمن دامت برکاتہم العالیہ آج کا مفتی عتیق الرحمن شہید رحمۃ اﷲ علیہ ہوچکا ہے۔ تاریخ نے اب اس کے نام کیساتھ کچھ لاحقے مزید لگادئے ہیں۔
وہ لڑکھڑاتے قدموں سے آگے بڑھا اور سوچنے لگا۔ یہصرف میرے باپ کی لاش نہیں ہے بلکہ یہ وہ کٹی ہوئی زبان ہے جو خدا نے مسلک دیوبند کو دے رکھی تھی۔ یہ لاشا اس ترجمان اہل سنت کا ہے جس نے وقت کے حکمرانوں کے سامنے بھی علمائے حق کی ترجمانی کرتے ہوئے مصلحت کی چادر نہیں اوڑھی ۔ یہ وہ شکستہ قلم ہے جسے محاذ پر کفریہ طاقتوں سے نبردآزما مجاہدین اپنے لئے ایک تلوار کی مانند گردانتے تھے۔
خود کو تفکرات وتصورات کے اژدھام سے نکالتے ہوئے فوراً جمال نے عمار کو آغاخان ہسپتال شفٹ کیا اور گھر اطلاع دی۔ یارغار بھائی ارشاد اپنے رفیق کے غم میں آخری سانسیں سول ہسپتال میں ہی لے رہے تھے۔
مفتی صاحب کو رات ایدھی سرد خانے کے مرحلے سے گزارتے ہوئے اگلے دن جامعہ بنوریہ عالمیہ پہنچایا گیا۔ بعدنماز جمعہ حضرت شہید کا دیدار شروع ہوا جس کا دورانیہ عصر تک رہا۔ وقت بیت گیا مگر دیدار کیلئے آئے ہوئے معتقدین کا تانتا بندھا رہا۔ بعد نماز عصر حضرت شہید کے بھائی مولانا عبدالشکور صاحب نے نماز جنازہ کی امامت فرمائی۔ تاحدنگاہ سروں کا اک سمندر تھا جو نماز جنازہ میں شریک تھا۔ آج کی اس تاریخ میں مفتی شہید کے یارغار نے بھی مفتی صاحب کی شہادت کا غم سینے میں لئے اپنی زندگی کا تتمہ لکھ ڈالا تھا۔
مفتی صاحب کا جسدِاطہر تدفین کیلئے قبل ازمغرب جامعہ بنوریہ سے متصل بنوریہ قبرستان میں لایا گیا۔
آہ…! مؤرخہ 6جون 1949ء کو طلوع ہونے والا علم وعمل کا وہ آفتاب علما وطلبا اور معتقدین کی آہوں اور سسکیوں میں مؤرخہ 23 جون 2005ء کو عین مغرب کے وقت غروب ہوگیا۔
This is a short video in Urdu by Zeeshan Usmani, PhD, a data scientist of Pakistani origin based in Florida. He is one of only 130 odd experts worldwide (called Kaggle grandmasters) in the use of data science platforms. He is closely associated with ulama of Pakistan, prominent among them being Mufti Taqi Usmani DB.
He talks about how he was affected by the acquisition of knowledge.
It is a short clip, and, something I feel brother Maripat would find very interesting.
This cannot be undone and I am sure it will be greatly appreciated.
We apologise but you have been denied access to report posts in this thread. This could be due to excessively reporting posts and not understanding our forum rules. For assistance or information, please use the forum help thread to request more information. Jazakallah